حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین سید علیرضا تراشیون، خاندانی امور کے ماہر و مشیر نے ’’اولاد کی شادی میں والدین کا کردار‘‘ کے عنوان سے ایک اہم سوال کا تفصیلی جواب پیش کیا ہے، جو اہلِ فکر و نظر کی خدمت میں پیش ہے۔
سوال: میرا بیٹا بیس سال کا اور طالب علم ہے۔ اس کی شادی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ والدین اس مرحلے پر کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ کیا میں اس کے لیے خود رشتہ تلاش کر سکتا ہوں؟ اور اگر جواب انکار میں آئے تو کیا کرنا چاہیے؟
جواب: تجزیہ کار نے کہا کہ عموماً ہم اولاد کی شادی کے سلسلے میں دو بنیادی نکات بیان کرتے ہیں:
پہلا نکتہ:
اگر کوئی نوجوان گناہ میں پڑنے کے خطرے میں ہو اور شہوت پر قابو رکھنا اس کے لیے مشکل ہو جائے، تو شادی اس پر واجب ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت میں والدین کی ذمہ داری ہے کہ اس اہم دینی ضرورت کو نظرانداز نہ کریں۔
ایسے حالات میں والدین کا فرض ہے کہ سمجھداری اور احتیاط سے اس کے لیے مناسب اور دیندار شریکِ حیات کا انتخاب کریں۔
دوسری صورت:
اگر نوجوان گناہ کے خطرے میں نہیں مگر قدرتی طور پر شادی کی خواہش رکھتا ہے، تو والدین کے لیے چند اہم ہدایات ہیں۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ والدین کو اپنے بچے کی سوچ کو حقیقت پسندانہ بنانا چاہیے۔ شادی صرف دو افراد کا باہمی تعلق نہیں بلکہ کئی پہلوؤں کا مجموعہ ہے، جسے سمجھنے اور سنبھالنے کے لیے تیاری ضروری ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ایک روشن مثال حضرت علیؑ کی حضرت فاطمہؑ سے منگنی ہے۔ جب حضرت علیؑ نے رسول اللہ (ص) کے سامنے اظہار کیا، تو نبی اکرم(ص ) نے پوچھا: "علی، بتاؤ تمہارے پاس کیا ہے؟" یعنی آپ (ص) نے ان کی مالی اور عملی آمادگی کے بارے میں سوال کیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مالی ذمہ داری اور گھر چلانے کی صلاحیت دین و عقل دونوں کے نزدیک ضروری ہے۔
اسی طرح والدین کو بھی اپنے بیٹے سے پوچھنا چاہیے:
تمہاری موجودہ صلاحیت کیا ہے؟
تم زندگی کو کس حد تک سنبھال سکتے ہو؟
تمہارے پاس کون سی مہارتیں ہیں؟
اگلا مرحلہ اخلاقی اور عملی تیاری کا ہے۔
شادی کے بعد عملی زندگی میں تحمل، احترام، اچھا برتاؤ، خاندان کے ساتھ توازن اور گھر کے معاملات سنبھالنے جیسی کئی صفات ضروری ہوتی ہیں۔
اس لیے والدین کو یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ: تمہیں گھر داری، ہمسرداری اور مشترکہ زندگی کے آداب کا کتنا علم ہے؟
اگر نوجوان شریکِ حیات کے انتخاب کی طرف بڑھنا چاہتا ہے، تو ضروری ہے کہ اسے سمجھایا جائے کہ اچھا انتخاب دقت، معلومات اور مشورے کا تقاضا کرتا ہے۔
اس کے لیے معتبر کتابوں کا مطالعہ اور ماہرین سے مشورہ بہت مفید ہے۔ اس طرح نوجوان سطحی جذبات سے نکل کر سنجیدہ اور سمجھدار فیصلے کی طرف جاتا ہے۔
اگر والدین اسے یہ بنیادی باتیں نہ بتائیں تو کل کو وہ شکایت کرسکتا ہے کہ: "آپ سمجھدار تھے، آپ کو معلوم تھا، پھر آپ نے مجھے کیوں نہ بتایا؟"
اس لیے والدین کو چاہیے کہ ابتدا ہی سے اس کے ساتھ گفتگو کریں اور اس کی سوچ کو پختہ کریں۔
جب یہ واضح ہو جائے کہ نوجوان ذہنی، جذباتی اور عملی لحاظ سے تیار ہے، ذمہ داری اٹھا سکتا ہے، اور ہم کفو انتخاب پر توجہ رکھتا ہے، تو پھر والدین کو چاہیے کہ اس کا ساتھ دیں۔ والدین کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ: "نہیں، تم ابھی بچے ہو۔"
ایسی باتیں نوجوان کو دلسرد کردیتی ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ انکار یا روک ٹوک کے بجائے نرمی، سمجھداری اور منطقی وضاحت سے اسے درست راستہ دکھایا جائے۔ جب گفتگو، احترام اور دلیل کا ماحول بنے گا تو فیصلہ بھی بہتر ہوگا اور اولاد کا اعتماد بھی بڑھے گا۔
آخر میں کارشناس نے کہا کہ مناسب رہنمائی والدین اور اولاد دونوں کے لیے آرام، سمجھداری اور بہتر تصمیم کا سبب بنتی ہے، اور یہی کامیاب ازدواجی زندگی کا آغاز ہے۔









آپ کا تبصرہ